Tuesday 23 April 2013

پروانہ ردولوی کی یاد میں

شمارہ یکم تا پندرہ اپریل ۲۰۱۳

پروانہ ردولوی کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

پروانہ ردولوی کا اصلی نام سید میثم تمار تھا۔ ان کی پیدائش 11نومبر 1933 کو یوپی کے مردم خیز خطے ردولی میں ہوئی تھی۔ پروانہ ان کا تخلص تھا ۔ادب اور صحافت کی دنیا میں پروانہ ردولوی کے نام سے ہی جانے گئے۔ لکھنو

¿، کانپور، دہلی اور ممبئی میں پھیلی ہوئی ان کی صحافتی زندگی بڑی بوقلمو ں اور دلچسپ ہے۔ پروانہ ردولوی ایک بے چین روح کا نام تھاجو کہیں بھی زیادہ دنوں تک ٹھہرتے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1950 میں یوپی اسمبلی میں رپورٹر کے طور پر کیا تھا۔ ایک سال بعد ہی وہ دہلی آکر مولانا عبدالوحید صدیقی کے روزنامہ ’نئی دنیا‘ سے وابستہ ہوگئے۔ بعد کو 1955 میں انہوں نے کانپور سے خود اپنا روزنامہ ’سیاست نو‘ جاری کردیا۔ جس کی اشاعت دو سال تک جاری رہی۔ 1957 میں کانپور چھوڑ کر بمبئی جابسے اور وہاں کے قدیم روزنامہ ’ہندوستان‘ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں بھی ان کا دل نہیں لگا اور 1959 میں دوبارہ دہلی آکر ’نئی دنیا‘ سے وابستہ ہوگئے۔ 1960 میں جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ ’دعوت‘ اور 1963 میں روزنامہ ’ملک و ملت‘ سے وابستہ رہے۔ 1968 میں لکھنو


¿جاکرمسلم مجلس کے صدر ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے روزنامہ ’قائد‘ سے وابستہ ہوگئے۔ 1969 میں پھر دہلی آئے اور روزنامہ ’پرتاپ‘ میں ملازمت اختیار کی۔ سب سے طویل عرصہ انہوں نے یہیں گزارا۔ یعنی 1988 تک پورے 20سال ’پرتاپ‘ میں ادارتی اور انتظامی امور سنبھالتے رہے۔ بعد ازاں ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ سے وابستہ ہوئے۔ 1990 میں شاہد صدیقی کی زیر ادارت روزنامہ ’عوام‘ میں ایگزیکیٹو ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔

پروانہ ردولوی ایک عمدہ صحافی، ادیب اور شاعر تھے۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں، جن میں اردو صحافت کا استغاثہ، افسانوی مجموعہ ’جونک‘، نجات کا راستہ اور اپنے ہم عصر ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں کے خاکوں پر مشتمل کتاب ’ہو بہ ہو‘ قابل ذکر ہے۔ انہوں نے کئی ناول اور کربلا کے منظر نامے بھی تحریر کئے۔ انہیں دہلی اور یوپی کے علاوہ آل انڈیا میر اکادمی نے بھی اعزازات سے نوازا۔
جید صحافی پروانہ ردولوی کو زبان و بیان پر جو غیر معمولی قدرت حاصل تھی وہ کم ہی صحافیوں کا مقدر ہوتی ہے۔ پروانہ ردولوی نے نصف صدی کا طویل عرصہ اردو صحافت کی رفاقت میں گزارا اور اس کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ اردو صحافت میں بھی چار چاند لگائے۔ انہوں نے اردو کو اس دور میں ذریعہ معاش بنایا تھا، جب اس کے وسائل تو محدود تھے لیکن قارئین لا محدود۔ نہایت معمولی اجرت پر محنت سے معیاری کام کرنے کا جو ہنر ہمارے بزرگ صحافیوں میں پایا جاتا ہے اس کا عشر عشیر بھی آج کے صحافیوں میں موجود نہیں ہے۔
پروانہ ردولوی محنت کش اردو صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جس نے اردو صحافت کو ایک مشن اور مقصد کے طور پر اپنایا تھا۔ اس کے ذریعہ دولت بٹورنا یا اس سے حاصل ہونے والی شہرت کے بل پر خدا کی زمین پر اکڑ کر چلنا نہیںسیکھا تھا۔ پروانہ ردولوی کی نسل کے لوگوں نے اردو صحافت کو طاقت ور اور توانا بنانے کے لئے اس کی رگوں میں اپنا خون ہی نہیں دوڑایا بلکہ اس عشق میں اپنی ہڈیاں تک گھلا دیں۔
ماضی کے جھروکوں سے دیکھتا ہوں تو سن 80 کی دہائی کے وہ دن یاد آتے ہیں جب اس نو آموز طالب علم نے اردو صحافت کی سنگلاخ وادی میں قدم رکھا تھا۔ اس دور میں اردو صحافت نت نئے رنگوں سے آشنا نہیں ہوئی تھی اور سفید کاغذ پر کالے یا لال رنگ کے اخبارات شائع ہوتے تھے۔ لیکن ان میں اتنی گہرائی اور گیرائی ہوتی تھی کہ انہیں محفوظ رکھنے کو جی چاہتا تھا۔ اس دور میں سلامت علی مہدی، ناز انصاری، مہدی نظمی، اختر صدیقی، وجاہت افروز، محفو ظ الرحمن، جمنا داس اختر، گربچن چندن، شاہد صدیقی اور فاروق اگلی جیسے لوگ اس دشت کے شہسواروں میں شامل تھے۔ ان میں سے جن لوگوں کی تربیت اور شفقت میں مجھے ’نئی دنیا‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان میں سلامت علی مہدی، اختر صدیقی اور وجاہت افروز کے انتقال کے بعد اب صرف پروانہ ردولوی ہی بقید حیات تھے، جو ہمیشہ شفقت کا سلوک کرتے تھے اور درد مندی کے ساتھ کار آمد مشوروں سے نوازتے تھے۔
پروانہ ردولوی کے جس ہنر نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت تھی۔ کسی لغت کے بغیر وہ اتنا رواں اور سلیس ترجمہ کرتے تھے کہ انہیں دیکھ کر رشک آتا تھا۔ پروانہ ردولوی کو جتنا عبور اردو پر حاصل تھا اتنے ہی کمانڈ وہ انگریزی پر بھی رکھتے تھے۔ اسی طرح مضمون نگاری اور سیاسی تبصرے وتجزیے اسی قدر بے باکی سے کرتے تھے۔ انہیں نثر کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی یکساں قدرت حاصل تھی۔ موجودہ دور میں ایسے بہت کم لوگ ملیں گے جو نظم و نثر پر یکساں قدرت رکھتے ہوں۔ پروانہ ردولوی کا ہنر یہ تھا کہ وہ ادب اور صحافت کے تمام رموز اور جہتوں سے کمال درجہ کی آشنائی کے باوجود ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا ہی مظاہرہ کرتے تھے کہ یہی اعلیٰ ظرف اور اعلیٰ دماغ لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی خاکساری کا ہنر سکھایا ہے۔
موجودہ دور میں دہلی سے جو اردو اخبارات شائع ہورہے ہیں ان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کی کمانیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو زبان و بیان تو کجا صحیح املا بھی نہیں لکھ سکتے۔ اس لئے اردو صحافیوں کی جو نئی نسل تیار ہورہی ہے اس کی تربیت کا کوئی نظم کہیں موجود نہیں ہے۔ آج کسی بھی اخبار میں پروانہ ردولوی جیسی صلاحیت کا کوئی صحافی نہیں ملے گا جو اردو صحافت کے نئے طالب علموں کو یہ بتا سکے کہ جملہ سازی کیسے کی جاتی ہے۔ بامحاورہ اور سلیس ترجمہ کا کیا طریقہ ہے یا اردو میں صحیح املا لکھنے کے کیا فائدے ہیں۔ اس بحران کی وجہ آج کے اردو اخباروں پر ہندی صحافت کی نہایت بے میل ترکیبوں اور الفا ظ کی اجارہ داری ہوا چاہتی ہے۔ اگر اس در اندازی کو نہ روکا گیا تو جلد ہی شمالی ہندوستان کی اردو صحافت ’بے زبان‘ ہوجائے گی۔
سن 80 کی دہائی کے آخری برسوں میں ہفت روزہ نئی دنیا کو چار چاند لگانے میں جہاں استاد جناب شاہد صدیقی کی صلاحیت اور دور بیں نگاہ کا دخل تھا، وہیں اس کے صفحات پر مرحوم اختر صدیقی کی عرق ریزی، وجاہت افروز (وی دہلوی) مرحوم کی بے باک تحریریں اور پروانہ صاحب کے ترجمہ اور تبصروں کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس خاکسار نے سیاسی اور ادبی شخصیات کے انٹرویوز کے علاوہ بابری میں داخل ہونے سے لے کر اس دور کے ہولناک فسادات کی رپورٹنگ کا جو کام جان ہتھیلی پر رکھ کر کیا، اسے پروانہ صاحب کی حوصلہ افزائی نے دوچند کردیا۔ وہ نہات معتبر اور کار آمد مشورے دیتے تھے، جنہیں یہ طالب علم پوری خندہ پیشانی سے قبول کرتا تھا۔پروانہ صاحب نے ہمیشہ محنت اور دقت پسندی کو اپنا شعار بنایا اور انہوں نے صحافت کو کبھی آسائشیں حاصل کرنے کا وسیلہ نہیں سمجھا۔ اسی لئے وہ عمر کے آخری حصہ تک اپنے دست و بازو پر منحصر رہے اور اسی حال میں موت کو گلے لگالیا۔ انتقال سے چند روز پہلے تک وہ پی آئی بی کے اردو یونٹ میں اسی بانکپن کے ساتھ ترجمہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے اور ان کے مسودے میں کہیں کوئی کانٹ چھانٹ نہیںہوتی تھی۔
پروانہ صاحب کی جان لیوا بیماری کے بارے میں برادرم تحسین منور نے جو تفصیلات بتائیں وہ مرحوم کی زندہ دلی اور خوش طبعی کی گواہی دیتی ہیں۔ برین اسٹروک سے پہلے وہ اپنے بیٹوں سے خوب ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ لطائف اور دلاورفگار کے اشعار دہرائے جاتے رہے اور ہنسی مذاق جاری رہا کہ اسی میں موقع کو غنیمت جان کر موت ان پر حملہ آور ہوئی اور وہ بھی دماغ پر۔ آخر پروانہ صاحب کا اصل اثاثہ ان کا دماغ ہی تو تھا جس میں اردو ادب، صحافت اور شاعری کے سارے رموز پوشیدہ تھے۔ پروانہ ردولوی اردو صحافت کی شمع کے ایسے حقیقی پروانے تھے کہ اب اس عشق میں خود کو جلانے والا کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوگا۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
masoom.moradabadi@gmail.com

راج ناتھ کی نئی ٹیم


پروانگی

خطرے میں ٹھکانا ہے تو مودی کی طرح سوچ
گھر اپنا بچانا ہے تو مودی کی طرح سوچ
باقی کی ہر ایک سوچ تجھے لے کے مری ہے
مودی کو ہرانا ہے تو مودی کی طرح سوچ
(تحسین منور )

راج ناتھ کی نئی ٹیم

بھارتی جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے مالی برس کے آخری دن آخر اپنی ٹیم کا اعلان کر ہی دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تمام اگر مگر کو کنارے لگاتے ہوئے بھارتی جنتا پارٹی کے پرانی روش پر لوٹنے کا اشارا دے دیا ہے۔ان کی ٹیم سازی میں جہاں پرانے دھرندروں کی نہیں سنی گئی وہیںگجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے مر کزی قیادت میں لوٹنے کا اشارا دے دیا ہے۔ اگر خبروں کو سچ مانا جائے تو نریندر مودی کی برابری کے لئے مدھیہ پردیش کے وزیرِ اعلیٰ شو راج سنگھ چوہان کا نام آگے کیا گیا تھا مگر وہ اپنی ریاست کی تمام تر ترقی کے باوجود پارلیمانی بورڈ میں مقام حاصل نہیں کر پائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنی میڈیا پلاننگ کو نریندر مودی کے انداز میں ترتیب دینا ہوگا۔ نریندر مودی نے مخالف آوازوں کو بھی اپنے لئے استعمال کرنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ تبھی تو تمام شور شرابے کے باوجود نہ گجرات میں اور نہ ہی ملک میں ان کا قد کم ہوا ہے۔یہ ایک طرح سے کانگریس کے لئے بھی لمحہءفکریہ ہے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود نریندر مودی مضبوط ہوئے ہیں ۔دراصل کانگریس نے مودی کو گجرات میں ہی گھیرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔انہوں نے مودی کو گجرات میں کمزور کرنے کے لئے کچھ کیا ہی نہیں ۔نہ انہوں نے گجرات میں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑا لیڈر دیا اور نہ ہی انہیں ہرانے کے لئے دل سے کام کیا۔ لے دے کے مودی کے ہی ساتھی رہے شنکر سنگھ واگھیلا ہی ان سے الجھنے والے بڑے لیڈر نظر آئے۔کانگریس کے ہاتھ پاﺅں تو تب پھولنے شروع ہوئے جب مودی نے گجرات کے بعد اپنی نظر دہلی کی کرسی پر ٹکا دی۔لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ نریندر مودی اب اتنے مضبوط ہو چکے تھے کہ انہیں ان کی پارٹی میں بھی کو ئی نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نہ صرف خود راج ناتھ کی ٹیم میںآنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اپنے معتمد خاص امت شاہ کو بھی کئی معاملوں میں الجھے ہونے کے باوجودشامل کر پائے۔
اگر دیکھا جائے تو اس میں راج ناتھ سنگھ کی اپنی چلی ہے اور انہوں نے ۴۱۰۲ءکے انتخابات کو نظر کے سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ فی الحال نریندر مودی بی جے پی کے غیر اعلان شدہ وزیرِ اعظم کے امیدوار دکھائی دے رہے ہیں ۔اس کا فائدہ بی جے پی کو یہ ہے کہ اس سے سیکولرزم کے نام پر ان کے ساتھ جڑی پارٹیوں یعنی نتیش کمار کو اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس ٹیم کے اعلان سے راج ناتھ سنگھ نے کانگریس کی راہ بھی آسان کر دی ہے۔ جہاںبی جے پی کو ہندوتو کے سخت گیر حمایتوں کا ووٹ ملنا اب طے ہے وہیں اقلیتوں کے پاس اب لے دے کے نریندر مودی کے خوف سے کانگریس کو ووٹ دینے کے علاوہ چارہ کیا بچے گا۔ یہ ان پارٹیوں کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے جو مسلم ووٹوں کی کھیتی آنکھ بند کر کے کاٹتے ہیں مگر جواب میں صرف وعدوں کا ٹھیکرا تھما دیتے ہیں۔اب مسلم ووٹ صرف اس سیکولر امیدوار کی طرف مڑے گا جو فرقہ پرست طاقتوں کو ہراتا دکھائی دے گا۔ممکن ہے کہ اس اعلان کے بعد اتر ہردیش میں سماج وادی پارٹی کو ایک بار پھر اپنی فہرست نئے سرے سے ترتیب دینی پڑے مگر راج ناتھ سنگھ کی یہ ٹیم بی جے پی کے لئے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار راج ناتھ سنگھ کی صدارت میں بھارتی جنتا پارٹی پرانی تاریخ دہراتی ہے یا نیا باب لکھتی ہے۔
۲۱،اپریل ۸۰۰۲ءکو ہندوستانی صحافت کے اہم ستون حضرت پروانہ رُدولوی کو اجل ہم سے چھین لے گئی تھی۔ ہم ان ہی کی صحافتی اقدار کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پروانہ رُدولوی کی برسی کے موقع پر ہم انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس بات کا اعادہ بھی کرتے ہیں کہ ہم ان کی صحافتی اقدار کو سنبھالے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس سلسلے میں ہم ان کے چاہنے والوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری رہنمائی کا فرض ہمیشہ کی طرح ادا کرتے رہیںگے ۔شکریہ!!!

پروانہ رُدولوی مرحوم کی زندہ تحریر



اڈوانی کے جانشین مودی ہوںگے


پروانہ رُدولوی مرحوم کی یہ تحریر 21 مارچ 2008کی ہے ۔آج جس طرح نریندر مودی کا قد بی جے پی میںبلند ہوا ہے وہ ان کی تحریر کی صداقت کا اعتراف ہی کہا جا سکتا ہے۔اس تحریر کو اگر بغیر تاریخ جانے پڑھا جائے تو لفظ بہ لفظ آج کی ہی تحریر لگتی ہے۔)
وزارت عظمیٰ کے بھوکے بی جے پی کے صف اول کے لیڈر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی پر تعریف کے پھولوں کی بارش کرتے ہوئے گذشتہ جمعرات کو سی این این۔ آئی بی این کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ”ان کا کوئی اپنا نجی نظریہ نہیں ہے۔ جس نظریہ پر وہ عمل پیرا ہیں وہ بی جے پی کا یا آر ایس ایس کا نظریہ ہے اور اس نظریہ کو ہم میں سے بہت لوگ مانتے ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں۔
معلوم نہیں اقتدار کے بھوکے ان ”سیاستدانوں“ کا رد عمل اڈوانی کے اس بیان پر کیا ہوگا جو این ڈی اے میں شامل ہیں۔ بی جے پی کی عنایت خسروانہ کے مزے لوٹ چکے ہیں یا آج بھی لوٹ رہے ہیں اور خود کو ”سیکولر“ بنا کر پیش کرنے میں بھی شرم نہیں کرتے جیسے نتیش کمار، شرد یادو اور جارج فرنانڈیز وغیرہ۔
 اڈوانی نے صرف نریندر مودی کے نظریات ہی کی وضاحت نہیں کی ہے بلکہ انہیں عظیم صلاحیتوں کا مالک بھی قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ان کی پارٹی میں یوں تو بہت سے باصلاحیت لوگ موجود ہیں مگر مودی جیسی اعلی صلاحیتوں کے مالک صرف چند قائدین ہی ہوںگے۔ اڈوانی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مودی کو اپنا صحیح جانشین مانتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب گجرات کو مسلمانوں کے خون میں نہلانے والے وزیر اعلی کی شان میںایل کے اڈوانی نے قصیدہ پڑھا ہے ۔ وہ فروری ۲۰۰۲ء میں اس وقت بھی مودی کے قصیدے پڑھ رہے تھے جب گجرات میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا تھا، ان کی عزت و آبرو کو لوٹا جارہا تھا، حاملہ مسلم عورتوں کے پیٹ چاک کرکے ان میں پل رہے بچوں تک کو ذبح کیا جا رہا تھا اور ان کو منظم پیمانہ پر اجاڑا جارہا تھا۔اب اڈوانی نے ان نظریات کو ، جن پر نریندر مودی نے عمل کیا اور آج تک عمل کررہے ہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات قرار دے کر اور خود کو بھی ان نظریات کا پیروکار بتاکر ہندوتوا کا ایک اور سیاسی تیر چلایا ہے جس کا نشانہ مرکزی اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنا ہے اور آر ایس ایس کے نظریات پر عمل پیرا ایک ایسے سیاستداں کے طور پر وزیر اعظم کی کرسی حاصل کرنا ہے جو بدنام زمانہ نریندر مودی کو اپنا جانشین بنانے کا خواہاں ہے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ایل کے اڈوانی نے یہ بیان دے کر آر ایس ایس کے خیمے میں اپنیرہی سہی مخالفت کو ختم کردینے کی ایک موثر کوشش کی ہے۔ وہ آر ایس ایس کی قیادت کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بھگوا بریگیڈ میں ان کی شمولیت پکی ہے اور وہ آر ایس ایس کے نظریات پر عمل پیرا رہتے ہوئے ہندوستان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر پہنچنا چاہتے ہیں اس لئے آر ایس ایس کی قیادت بھی ان کی بھرپور مدد کرے اور آر ایس ایس کا کیڈر بھی ان کا ساتھ دے تاکہ ایک سچا اور پکا راشٹریہ سویم سیوک ہندوستان کا وزیر اعظم بن کر اسی طرح پورے ملک پر راج کرے جس طرح نریندر مودی نے ہندوستان کی صرف ایک ریاست میں راج کیا ہے۔ گرچہ بظاہر ایل کے اڈوانی کے وزیر اعظم بننے کی کوئی امید نہیں ہے مگر اقتدار کے بھوکے سیاسی قائدین کی جیبی علاقائی سیاسی پارٹیاں ان کی مددگار بن کر قومی سیاست کا رخ موڑ سکتی ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ این ڈی اے کمزور ہوچکا ہے اور بی جے پی کے پاس بھی قربانیاں دینے والا کیڈر نہیں رہ گیا ہے مگر بی جے پی مخالف پارٹیوں کے رہنماﺅں کی سیاسی رقابتوں میں یوپی اے کے برسراقتدار آنے کے بعد بہت اضافہ ہوگیا ہے جو بالواسطہ طور پر این ڈی اے یعنی بی جے پی کے لئے ٹانک کا کام کرے گا۔
مثال کے طور پر بی ایس پی کی سپریمو کماری مایاوتی ، سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو، جن شکتی پارٹی کے قائد رام ولاس پاسوان، راشٹریہ جنتا دل کے رہنما لالو پرساد اور تیلگو دیشم پارٹی کے قائد چندرا بابو نائیڈو الگ الگ اپنی اپنی پارٹیوں کی کامیابی کے لئے جتنا زیادہ زور لگائیں گے اسی قدر بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔
اب ہندوستان میں کسی ایک پارٹی کی حکومت کے قیام کا کوئی امکان نہیں رہ گیا ہے، ذات پات کے تعصبات، علاقائی تعصبات ، لسانی تعصبات، فرقہ وارانہ اختلافات اور سماجی تفرقوں نے سیاسی نظریات اور قومی مفادات پر غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ ان لعنتوں نے مرکز کو کمزور بنا دیا ہے اور جب تکہ یہ لعنتیں باقی رہیںگی مرکز کی کمزوری برقرار رہے گی جس کے نتیجہ میں کھچڑی وزارتیں بنیں گی اور سنگھ خاندان واضح اکثریت نہ حاصل کرسکنے کے باوجود سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعہ برسراقتدار آتا رہے گا۔
اس صورتحال سے اسی حالت میں بچا جاسکتا ہے جب مذکورہ بالا علاقائی سیاسی پارٹیاں مفاہمت کرکے رجعت پسند، فرقہ پرست اور مودی کی پرستار پارٹیوں کے محاذ کا مقابلہ کریں۔ اگر ان میں اتحاد نہ ہوسکا تو ترقی پسند سیکولر ہندوستان کو ایک بار پھر ہندوتوا کی لیباریٹری بنانے کی خواہاں طاقتوں کو سیاسی برتری حاصل ہوجائے گی جس کا سب سے زیادہ نقصان اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ہوگا۔ اس لئے ہمارے خیال میں مسلم رائے دہندگان کو آئندہ انتخابات میں بہت سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا جس کی تیاری ان کو ابھی سے شروع کردینی چاہئے۔
***************


پروانہء ہند 
کے 
بلاگ پر آپکا خیر مقدم ہے 
لاگ آن کریں  
www.parwanaehind.blogspot.com
پربھی دستیاب ہے