Tuesday 23 April 2013

پروانہ رُدولوی مرحوم کی زندہ تحریر



اڈوانی کے جانشین مودی ہوںگے


پروانہ رُدولوی مرحوم کی یہ تحریر 21 مارچ 2008کی ہے ۔آج جس طرح نریندر مودی کا قد بی جے پی میںبلند ہوا ہے وہ ان کی تحریر کی صداقت کا اعتراف ہی کہا جا سکتا ہے۔اس تحریر کو اگر بغیر تاریخ جانے پڑھا جائے تو لفظ بہ لفظ آج کی ہی تحریر لگتی ہے۔)
وزارت عظمیٰ کے بھوکے بی جے پی کے صف اول کے لیڈر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی پر تعریف کے پھولوں کی بارش کرتے ہوئے گذشتہ جمعرات کو سی این این۔ آئی بی این کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ”ان کا کوئی اپنا نجی نظریہ نہیں ہے۔ جس نظریہ پر وہ عمل پیرا ہیں وہ بی جے پی کا یا آر ایس ایس کا نظریہ ہے اور اس نظریہ کو ہم میں سے بہت لوگ مانتے ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں۔
معلوم نہیں اقتدار کے بھوکے ان ”سیاستدانوں“ کا رد عمل اڈوانی کے اس بیان پر کیا ہوگا جو این ڈی اے میں شامل ہیں۔ بی جے پی کی عنایت خسروانہ کے مزے لوٹ چکے ہیں یا آج بھی لوٹ رہے ہیں اور خود کو ”سیکولر“ بنا کر پیش کرنے میں بھی شرم نہیں کرتے جیسے نتیش کمار، شرد یادو اور جارج فرنانڈیز وغیرہ۔
 اڈوانی نے صرف نریندر مودی کے نظریات ہی کی وضاحت نہیں کی ہے بلکہ انہیں عظیم صلاحیتوں کا مالک بھی قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ان کی پارٹی میں یوں تو بہت سے باصلاحیت لوگ موجود ہیں مگر مودی جیسی اعلی صلاحیتوں کے مالک صرف چند قائدین ہی ہوںگے۔ اڈوانی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مودی کو اپنا صحیح جانشین مانتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب گجرات کو مسلمانوں کے خون میں نہلانے والے وزیر اعلی کی شان میںایل کے اڈوانی نے قصیدہ پڑھا ہے ۔ وہ فروری ۲۰۰۲ء میں اس وقت بھی مودی کے قصیدے پڑھ رہے تھے جب گجرات میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا تھا، ان کی عزت و آبرو کو لوٹا جارہا تھا، حاملہ مسلم عورتوں کے پیٹ چاک کرکے ان میں پل رہے بچوں تک کو ذبح کیا جا رہا تھا اور ان کو منظم پیمانہ پر اجاڑا جارہا تھا۔اب اڈوانی نے ان نظریات کو ، جن پر نریندر مودی نے عمل کیا اور آج تک عمل کررہے ہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات قرار دے کر اور خود کو بھی ان نظریات کا پیروکار بتاکر ہندوتوا کا ایک اور سیاسی تیر چلایا ہے جس کا نشانہ مرکزی اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنا ہے اور آر ایس ایس کے نظریات پر عمل پیرا ایک ایسے سیاستداں کے طور پر وزیر اعظم کی کرسی حاصل کرنا ہے جو بدنام زمانہ نریندر مودی کو اپنا جانشین بنانے کا خواہاں ہے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ایل کے اڈوانی نے یہ بیان دے کر آر ایس ایس کے خیمے میں اپنیرہی سہی مخالفت کو ختم کردینے کی ایک موثر کوشش کی ہے۔ وہ آر ایس ایس کی قیادت کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بھگوا بریگیڈ میں ان کی شمولیت پکی ہے اور وہ آر ایس ایس کے نظریات پر عمل پیرا رہتے ہوئے ہندوستان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر پہنچنا چاہتے ہیں اس لئے آر ایس ایس کی قیادت بھی ان کی بھرپور مدد کرے اور آر ایس ایس کا کیڈر بھی ان کا ساتھ دے تاکہ ایک سچا اور پکا راشٹریہ سویم سیوک ہندوستان کا وزیر اعظم بن کر اسی طرح پورے ملک پر راج کرے جس طرح نریندر مودی نے ہندوستان کی صرف ایک ریاست میں راج کیا ہے۔ گرچہ بظاہر ایل کے اڈوانی کے وزیر اعظم بننے کی کوئی امید نہیں ہے مگر اقتدار کے بھوکے سیاسی قائدین کی جیبی علاقائی سیاسی پارٹیاں ان کی مددگار بن کر قومی سیاست کا رخ موڑ سکتی ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ این ڈی اے کمزور ہوچکا ہے اور بی جے پی کے پاس بھی قربانیاں دینے والا کیڈر نہیں رہ گیا ہے مگر بی جے پی مخالف پارٹیوں کے رہنماﺅں کی سیاسی رقابتوں میں یوپی اے کے برسراقتدار آنے کے بعد بہت اضافہ ہوگیا ہے جو بالواسطہ طور پر این ڈی اے یعنی بی جے پی کے لئے ٹانک کا کام کرے گا۔
مثال کے طور پر بی ایس پی کی سپریمو کماری مایاوتی ، سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو، جن شکتی پارٹی کے قائد رام ولاس پاسوان، راشٹریہ جنتا دل کے رہنما لالو پرساد اور تیلگو دیشم پارٹی کے قائد چندرا بابو نائیڈو الگ الگ اپنی اپنی پارٹیوں کی کامیابی کے لئے جتنا زیادہ زور لگائیں گے اسی قدر بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔
اب ہندوستان میں کسی ایک پارٹی کی حکومت کے قیام کا کوئی امکان نہیں رہ گیا ہے، ذات پات کے تعصبات، علاقائی تعصبات ، لسانی تعصبات، فرقہ وارانہ اختلافات اور سماجی تفرقوں نے سیاسی نظریات اور قومی مفادات پر غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ ان لعنتوں نے مرکز کو کمزور بنا دیا ہے اور جب تکہ یہ لعنتیں باقی رہیںگی مرکز کی کمزوری برقرار رہے گی جس کے نتیجہ میں کھچڑی وزارتیں بنیں گی اور سنگھ خاندان واضح اکثریت نہ حاصل کرسکنے کے باوجود سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعہ برسراقتدار آتا رہے گا۔
اس صورتحال سے اسی حالت میں بچا جاسکتا ہے جب مذکورہ بالا علاقائی سیاسی پارٹیاں مفاہمت کرکے رجعت پسند، فرقہ پرست اور مودی کی پرستار پارٹیوں کے محاذ کا مقابلہ کریں۔ اگر ان میں اتحاد نہ ہوسکا تو ترقی پسند سیکولر ہندوستان کو ایک بار پھر ہندوتوا کی لیباریٹری بنانے کی خواہاں طاقتوں کو سیاسی برتری حاصل ہوجائے گی جس کا سب سے زیادہ نقصان اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ہوگا۔ اس لئے ہمارے خیال میں مسلم رائے دہندگان کو آئندہ انتخابات میں بہت سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا جس کی تیاری ان کو ابھی سے شروع کردینی چاہئے۔
***************

No comments:

Post a Comment