Tuesday 23 April 2013

راج ناتھ کی نئی ٹیم


پروانگی

خطرے میں ٹھکانا ہے تو مودی کی طرح سوچ
گھر اپنا بچانا ہے تو مودی کی طرح سوچ
باقی کی ہر ایک سوچ تجھے لے کے مری ہے
مودی کو ہرانا ہے تو مودی کی طرح سوچ
(تحسین منور )

راج ناتھ کی نئی ٹیم

بھارتی جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے مالی برس کے آخری دن آخر اپنی ٹیم کا اعلان کر ہی دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تمام اگر مگر کو کنارے لگاتے ہوئے بھارتی جنتا پارٹی کے پرانی روش پر لوٹنے کا اشارا دے دیا ہے۔ان کی ٹیم سازی میں جہاں پرانے دھرندروں کی نہیں سنی گئی وہیںگجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے مر کزی قیادت میں لوٹنے کا اشارا دے دیا ہے۔ اگر خبروں کو سچ مانا جائے تو نریندر مودی کی برابری کے لئے مدھیہ پردیش کے وزیرِ اعلیٰ شو راج سنگھ چوہان کا نام آگے کیا گیا تھا مگر وہ اپنی ریاست کی تمام تر ترقی کے باوجود پارلیمانی بورڈ میں مقام حاصل نہیں کر پائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنی میڈیا پلاننگ کو نریندر مودی کے انداز میں ترتیب دینا ہوگا۔ نریندر مودی نے مخالف آوازوں کو بھی اپنے لئے استعمال کرنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ تبھی تو تمام شور شرابے کے باوجود نہ گجرات میں اور نہ ہی ملک میں ان کا قد کم ہوا ہے۔یہ ایک طرح سے کانگریس کے لئے بھی لمحہءفکریہ ہے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود نریندر مودی مضبوط ہوئے ہیں ۔دراصل کانگریس نے مودی کو گجرات میں ہی گھیرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔انہوں نے مودی کو گجرات میں کمزور کرنے کے لئے کچھ کیا ہی نہیں ۔نہ انہوں نے گجرات میں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑا لیڈر دیا اور نہ ہی انہیں ہرانے کے لئے دل سے کام کیا۔ لے دے کے مودی کے ہی ساتھی رہے شنکر سنگھ واگھیلا ہی ان سے الجھنے والے بڑے لیڈر نظر آئے۔کانگریس کے ہاتھ پاﺅں تو تب پھولنے شروع ہوئے جب مودی نے گجرات کے بعد اپنی نظر دہلی کی کرسی پر ٹکا دی۔لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ نریندر مودی اب اتنے مضبوط ہو چکے تھے کہ انہیں ان کی پارٹی میں بھی کو ئی نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نہ صرف خود راج ناتھ کی ٹیم میںآنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اپنے معتمد خاص امت شاہ کو بھی کئی معاملوں میں الجھے ہونے کے باوجودشامل کر پائے۔
اگر دیکھا جائے تو اس میں راج ناتھ سنگھ کی اپنی چلی ہے اور انہوں نے ۴۱۰۲ءکے انتخابات کو نظر کے سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ فی الحال نریندر مودی بی جے پی کے غیر اعلان شدہ وزیرِ اعظم کے امیدوار دکھائی دے رہے ہیں ۔اس کا فائدہ بی جے پی کو یہ ہے کہ اس سے سیکولرزم کے نام پر ان کے ساتھ جڑی پارٹیوں یعنی نتیش کمار کو اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس ٹیم کے اعلان سے راج ناتھ سنگھ نے کانگریس کی راہ بھی آسان کر دی ہے۔ جہاںبی جے پی کو ہندوتو کے سخت گیر حمایتوں کا ووٹ ملنا اب طے ہے وہیں اقلیتوں کے پاس اب لے دے کے نریندر مودی کے خوف سے کانگریس کو ووٹ دینے کے علاوہ چارہ کیا بچے گا۔ یہ ان پارٹیوں کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے جو مسلم ووٹوں کی کھیتی آنکھ بند کر کے کاٹتے ہیں مگر جواب میں صرف وعدوں کا ٹھیکرا تھما دیتے ہیں۔اب مسلم ووٹ صرف اس سیکولر امیدوار کی طرف مڑے گا جو فرقہ پرست طاقتوں کو ہراتا دکھائی دے گا۔ممکن ہے کہ اس اعلان کے بعد اتر ہردیش میں سماج وادی پارٹی کو ایک بار پھر اپنی فہرست نئے سرے سے ترتیب دینی پڑے مگر راج ناتھ سنگھ کی یہ ٹیم بی جے پی کے لئے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار راج ناتھ سنگھ کی صدارت میں بھارتی جنتا پارٹی پرانی تاریخ دہراتی ہے یا نیا باب لکھتی ہے۔
۲۱،اپریل ۸۰۰۲ءکو ہندوستانی صحافت کے اہم ستون حضرت پروانہ رُدولوی کو اجل ہم سے چھین لے گئی تھی۔ ہم ان ہی کی صحافتی اقدار کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پروانہ رُدولوی کی برسی کے موقع پر ہم انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس بات کا اعادہ بھی کرتے ہیں کہ ہم ان کی صحافتی اقدار کو سنبھالے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس سلسلے میں ہم ان کے چاہنے والوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری رہنمائی کا فرض ہمیشہ کی طرح ادا کرتے رہیںگے ۔شکریہ!!!

No comments:

Post a Comment